اب دل میں تیرے تیر کا پیکاں نہیں رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب دل میں تیرے تیر کا پیکاں نہیں رہا
by افسر میرٹھی

اب دل میں تیرے تیر کا پیکاں نہیں رہا
کیونکر جیوں کہ زیست کا ساماں نہیں رہا

گردوں کی سمت دیکھ کے رخصت ہوا مریض
جب کوئی اس کے حال کا پرساں نہیں رہا

تاروں نے کر دیا تری وحشت کا راز فاش
اے رات تیرا حسن بھی پنہاں نہیں رہا

مجھ پر تو تیری آنکھ نے پھر کر غضب کیا
میں لطف گیر گردش دوراں نہیں رہا

فصل بہار کی مری وحشت نے دی خبر
اب دل سنبھالنا مجھے آساں نہیں رہا

اے یاس تو نے آ کے سہارا دیا مجھے
جب کوئی میرے حال کا پرساں نہیں رہا

پچھلے پہر شکست کی آواز آئی ہے
ٹوٹا ہے دل کہ ضبط کا امکاں نہیں رہا

اب دل میں تیرے تیر کے پیکاں کی یاد ہے
گو دل میں تیرے تیر کا پیکاں نہیں رہا

ہنستے ہیں پھول زخم پہ دشمن ہے باغباں
گلشن میں جی بہلنے کا ساماں نہیں رہا

جو درد تو نے جس کو دیا واہ رے اثر
اس درد کا جہان میں درماں نہیں رہا

وحشت بھری نگاہ نے ویران کر دیا
اب کیا کروں وہ رنگ گلستاں نہیں رہا

حسرت نے بے کسی میں کفن بن کے ڈھک لیا
اب لاشہ مجھ غریب کا عریاں نہیں رہا

افسرؔ مشاعروں میں ہے کیوں میری جستجو
میں تو مشاعروں میں غزل خواں نہیں رہا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse