اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس
by جگر مراد آبادی

اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس
درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا

ٹوٹ پڑتا ہے دفعتاً جو عشق
بیشتر دیر پا نہیں ہوتا

وہ بھی ہوتا ہے ایک وقت کہ جب
ماسوا ماسوا نہیں ہوتا

ہائے کیا ہو گیا طبیعت کو
غم بھی راحت فزا نہیں ہوتا

دل ہمارا ہے یا تمہارا ہے
ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہوتا

جس پہ تیری نظر نہیں ہوتی
اس کی جانب خدا نہیں ہوتا

میں کہ بے زار عمر بھر کے لیے
دل کہ دم بھر جدا نہیں ہوتا

وہ ہمارے قریب ہوتے ہیں
جب ہمارا پتا نہیں ہوتا

دل کو کیا کیا سکون ہوتا ہے
جب کوئی آسرا نہیں ہوتا

ہو کے اک بار سامنا ان سے
پھر کبھی سامنا نہیں ہوتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse