اب تو ہجوم یاس کی کچھ انتہا نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب تو ہجوم یاس کی کچھ انتہا نہیں
by بیخود موہانی

اب تو ہجوم یاس کی کچھ انتہا نہیں
یعنی مجھے امید کا بھی آسرا نہیں

کب ہم سے بے دلوں پہ نگاہ جفا نہیں
ہم خوب جانتے ہیں کہ تو بے وفا نہیں

اے رشک پردہ سوز شکایت کی جا نہیں
وہ بزم ناز ہے دل بے مدعا نہیں

دکھلائے پھر خدا نہ وہ مایوسیوں کے دن
ہوتا تھا یہ خیال کہ ہے یا خدا نہیں

اللہ رے بے نیازیٔ آسودگان خواب
اس قرب پر کسی سے کوئی بولتا نہیں

آتی ہے ذرے ذرے سے آواز بازگشت
پھر بھی یہ کہہ رہا ہے ابھی کچھ کہا نہیں

وہ خود بھی دفن ہو گئی اہل وفا کے ساتھ
بے کار ڈھونڈھتا ہے جہاں میں وفا نہیں

ہے جلوہ ریز بزم تصور جمال یار
اے شوق دید اب یہ تغافل روا نہیں

صدقے ترے کرم کے نہ دے زحمت سوال
کشکول ہے فقیر کا دست دعا نہیں

محرومیوں سے ذوق ہے مجبوریوں سے عشق
میں کامیاب ہوں یہ مرا مدعا نہیں

وہ دید ہائے شوق کہ دیکھیں ترا جمال
کس کا بہشت کچھ بھی انہیں دیکھتا نہیں

کیوں اس کے چومتے ہی نہ معراج ہو نصیب
بیخودؔ خدا کا ہاتھ ہے دست دعا نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse