اب تو نے گل نہ گلستاں ہے یاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب تو نے گل نہ گلستاں ہے یاد
by قائم چاندپوری

اب تو نے گل نہ گلستاں ہے یاد
اسی مکھڑے کی ہر زماں ہے یاد

ہم نشیں کہہ لے قصۂ مجنوں
ہم کو بھی دل کی داستاں ہے یاد

غنچہ کاٹے تھا جس کو دیکھ کے لب
کیوں صبا تجھ کو وہ وہاں ہے یاد

مستقل مرغ دل جو تڑپے ہے
کس کی سینے میں پرفشاں ہے یاد

سبق گریہ اشک کو کیا دوں
آپ ہی اس طفل کو رواں ہے یاد

گل سے کیا مختلط ہوں اے بلبل
مجھ کو وہ آفت خزاں ہے یاد

آہ اے چرخ پیر، قائمؔ نام
یاں جو رہتا تھا اک جواں ہے یاد

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse