اب تو لب سے نہ جائے گا آگے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب تو لب سے نہ جائے گا آگے
by قربان علی سالک بیگ

اب تو لب سے نہ جائے گا آگے
نالے کا زور شور تھا آگے

دشت الفت میں رہنما کیسا
میں نے رہبر کو دھر لیا آگے

دشت الفت ہے گرچہ دور ولے
دل سے کہتا ہوں یہ رہا آگے

بے وفائی اگر نہ کرتی عمر
ہم دکھاتے تمہیں وفا آگے

وہ خوشامد ہی میں گئے گھبرا
مجھ کو کہنا تھا مدعا آگے

دیکھنا جو نہ تھا سو دیکھ لیا
دیکھیے دیکھتے ہیں کیا آگے

عشق میں دے کے جاں ہوئی یہ خبر
آ گیا کچھ دیا لیا آگے

صبر و ہوش و خرد گئے دل سے
میری آنکھوں کے گھر لٹا آگے

مرگ عاشق کی سن کے سب روداد
پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا آگے

سالکؔ اور مے کشی خدا کی پناہ
کس قدر تھا یہ پارسا آگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse