اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا
by شاد عظیم آبادی

اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا
زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا

مژدہ اے روح تجھے عشق سا دم ساز آیا
نکبت فقر گئی شاہ سرافراز آیا

پاس اپنے جو نیا کوئی فسوں ساز آیا
ہو رہے اس کے ہمیں یاد ترا ناز آیا

پیتے پیتے تری اک عمر کٹی اس پر بھی
پینے والے تجھے پینے کا نہ انداز آیا

دل ہو یا روح و جگر کان کھڑے سب کے ہوئے
عشق آیا کہ کوئی مفسدہ پرداز آیا

لے رہا ہے در مے خانہ پہ سن گن واعظ
رندو ہشیار کہ اک مفسدہ پرداز آیا

دل مجبور پہ اس طرح سے پہنچی وہ نگاہ
جیسے عصفور پہ پر تول کے شہباز آیا

کیوں ہے خاموش دلا کس سے یہ سرگوشی ہے
موت آئی کہ ترے واسطے ہم راز آیا

دیکھ لو اشک تواتر کو نہ پوچھو مرا حال
چپ رہو چپ رہو اس بزم میں غماز آیا

اس خرابے میں تو ہم دونوں ہیں یکساں ساقی
ہم کو پینے تجھے دینے کا نہ انداز آیا

نالہ آتا نہیں کن رس ہے فقط اے بلبل
مرد سیاح ہوں سن کر تری آواز آیا

دل جو گھبرائے قفس میں تو ذرا پر کھولوں
زور اتنا بھی نہ اے حسرت پرواز آیا

دیکھیے نالۂ دل جا کے لگائے کس سے
جس کا کھٹکا تھا وہی مفسدہ پرداز آیا

مدعی بستہ زباں کیوں نہ ہو سن کر مرے شعر
کیا چلے سحر کی جب صاحب اعجاز آیا

رند پھیلائے ہیں چلو کو تکلف کیسا
ساقیا ڈھال بھی دے جام خدا ساز آیا

نہ گیا پر نہ گیا شمع کا رونا کسی حال
گو کہ پروانۂ مرحوم سا دم ساز آیا

ایک چپکی میں گلو تم نے نکالے سب کام
غمزہ آیا نہ کرشمہ نہ تمہیں ناز آیا

دھیان رہ رہ کے ادھر کا مجھے دلواتا ہے
دم نہ آیا مرے تن میں کوئی دم ساز آیا

کس طرح موت کو سمجھوں نہ حیات ابدی
آپ آئے کہ کوئی صاحب اعجاز آیا

بے انیسؔ اب چمن نظم ہے ویراں اے شادؔ
ہائے ایسا نہ کوئی زمزمہ پرداز آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse