Jump to content

اب اشک تو کہاں ہے جو چاہوں ٹپک پڑے

From Wikisource
اب اشک تو کہاں ہے جو چاہوں ٹپک پڑے
by ظہور اللہ بدایونی نوا
315688اب اشک تو کہاں ہے جو چاہوں ٹپک پڑےظہور اللہ بدایونی نوا

اب اشک تو کہاں ہے جو چاہوں ٹپک پڑے
آنکھوں سے وقت گریہ مگر خوں ٹپک پڑے

پہنچی جو ٹک جھلک ترے رانوں کی گوش تک
خجلت سے آب ہو در مکنوں ٹپک پڑے

طغیاں سرشک کا تو یہاں تک ہے چشم سے
اک قطرہ آب کا ہو تو جیجوں ٹپک پڑے

ڈوبا ہے بحر شعر میں ایسا نواؔ کہ اب
دے طبع کو فشار تو مضموں ٹپک پڑے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.