اب اس سے بڑھ کے کیا ناکامیاں ہوں گی مقدر میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب اس سے بڑھ کے کیا ناکامیاں ہوں گی مقدر میں
by مضطر خیرآبادی

اب اس سے بڑھ کے کیا ناکامیاں ہوں گی مقدر میں
میں جب پہنچا تو کوئی بھی نہ تھا میدان محشر میں

الٰہی نہر رحمت بہہ رہی ہے اس میں ڈلوا دے
گنہ گاروں کے عصیاں باندھ کر دامان محشر میں

کھلے گیسو تو دیدار خدا بھی ہو گیا مشکل
قیامت کا اندھیرا چھا گیا میدان محشر میں

شریک کثرت مخلوق تو کیوں ہو گیا یا رب
تری وحدت کا پردہ کیا ہوا میدان محشر میں

قیامت تو ہماری تھی ہم آپس میں نبٹ لیتے
کوئی پوچھے خدا کیوں آ گیا میدان محشر میں

کسی کا آبلہ پا قبر سے یہ پوچھتا اٹھا
کہیں تھوڑے بہت کانٹے بھی ہیں میدان محشر میں

الٰہی درد کے قصے بہت ہیں وقت تھوڑا ہے
شب فرقت کا دامن باندھ دے دامان محشر میں

نہ اٹھتے کشتگان ناز ہرگز اپنی تربت سے
تری آواز شامل ہو گئی تھی صور محشر میں

تہہ مدفن مجھے رہتے زمانہ ہو گیا مضطرؔ
کچھ ایسی نیند سویا ہوں کہ اب جاگوں گا محشر میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse