اب آپ رہ دل جو کشادہ نہیں رکھتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب آپ رہ دل جو کشادہ نہیں رکھتے
by شکیب جلالی

اب آپ رہ دل جو کشادہ نہیں رکھتے
ہم بھی سفر جاں کا ارادہ نہیں رکھتے

پینا ہو تو اک جرعۂ زہراب بہت ہے
ہم تشنہ دہن تہمت بادہ نہیں رکھتے

اشکوں سے چراغاں ہے شب زیست سو وہ بھی
کوتاہی مژگاں سے زیادہ نہیں رکھتے

یہ گرد رہ شوق ہی جم جائے بدن پر
رسوا ہیں کہ ہم کوئی لبادہ نہیں رکھتے

ہر گام پہ جگنو سا چمکتا ہے جو دل میں
ہم اس کے سوا مشعل جادہ نہیں رکھتے

سرخی نہیں پھولوں کی تو زخموں کی شفق ہے
دامان طلب ہم کبھی سادہ نہیں رکھتے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse