اب آئے ہو صدا سن کر گجر کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب آئے ہو صدا سن کر گجر کی
by نسیم دہلوی

اب آئے ہو صدا سن کر گجر کی
کہو جی شب کہاں تم نے بسر کی

سحر کو دفن کر کے جائیے گا
مصیبت اور ہے اک رات بھر کی

قفس میں بند کرنا تھا جو تقدیر
ندامت کیوں مجھے دی بال و پر کی

گزر جائے گی جو گزرے گی ہم پر
چلو جی راہ لو تم اپنے گھر کی

ابھی تو جان لے لے اے غم عشق
مصیبت کون اٹھائے عمر بھر کی

خدا کے واسطے یارو سنبھالو
کہ پھر شدت ہوئی درد جگر کی

ترشح آنسوؤں کا ہو رہا ہے
گھٹا امڈی ہوئی ہے چشم تر کی

نہ بولیں گے تمہارے خوف سے ہم
ہلائیں گے مگر زنجیر در کی

نہ آنا تم اجازت مانگنے کو
نہ دکھلانا ہمیں صورت سفر کی

کوئی دم کا بکھیڑا رہ گیا ہے
جگر تک برچھیاں پہنچیں نظر کی

ہمیں فصاد کا منہ دیکھنا ہے
اٹھانی ہے مصیبت نیشتر کی

حباب آسا ہے لطف زندگانی
حقیقت کچھ نہیں ہوتی بشر کی

نسیمؔ اب دل کتاں کی طرح ہے چاک
محبت میں کسی رشک قمر کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse