ابھی ہماری محبت کسی کو کیا معلوم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ابھی ہماری محبت کسی کو کیا معلوم
by داغ دہلوی

ابھی ہماری محبت کسی کو کیا معلوم
کسی کے دل کی حقیقت کسی کو کیا معلوم

یقیں تو یہ ہے وہ خط کا جواب لکھیں گے
مگر نوشتۂ قسمت کسی کو کیا معلوم

بظاہر ان کو حیا دار لوگ سمجھے ہیں
حیا میں جو ہے شرارت کسی کو کیا معلوم

قدم قدم پہ تمہارے ہمارے دل کی طرح
بسی ہوئی ہے قیامت کسی کو کیا معلوم

یہ رنج و عیش ہوئے ہجر و وصل میں ہم کو
کہاں ہے دوزخ و جنت کسی کو کیا معلوم

جو سخت بات سنے دل تو ٹوٹ جاتا ہے
اس آئینے کی نزاکت کسی کو کیا معلوم

کیا کریں وہ سنانے کو پیار کی باتیں
انہیں ہے مجھ سے عداوت کسی کو کیا معلوم

خدا کرے نہ پھنسے دام عشق میں کوئی
اٹھائی ہے جو مصیبت کسی کو کیا معلوم

ابھی تو فتنے ہی برپا کئے ہیں عالم میں
اٹھائیں گے وہ قیامت کسی کو کیا معلوم

جناب داغؔ کے مشرب کو ہم سے تو پوچھو
چھپے ہوئے ہیں یہ حضرت کسی کو کیا معلوم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse