ابھی تو یہی دیکھنا چاہتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ابھی تو یہی دیکھنا چاہتا ہوں
by پنڈت ہری چند اختر

ابھی تو یہی دیکھنا چاہتا ہوں
نہیں چاہتا ان کو یا چاہتا ہوں

وہ کہتے ہیں تم مجھ سے کیا چاہتے ہو
یہی کچھ تو میں جاننا چاہتا ہوں

مری نیتوں پر نظر رکھنے والو
خدارا بتا دو میں کیا چاہتا ہوں

نہ سمجھا کوئی جس کو وہ حرف ہوں میں
غلط ہو گیا ہوں مٹا چاہتا ہوں

وہ پرجوش آنسو وہ خاموش آہیں
وہی عشق کی ابتدا چاہتا ہوں

میں سمجھا وہ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں
وہ سمجھے کہ میں کچھ کہا چاہتا ہوں

امیدوں سے دل برباد کو آباد کرتا ہوں
مٹانے کے لئے دنیا نئی ایجاد کرتا ہوں

تری میعاد غم پوری ہوئی اے زندگی خوش ہو
قفس ٹوٹے نہ ٹوٹے میں تجھے آزاد کرتا ہوں

جفا کارو مری مظلوم خاموشی پہ ہنستے ہو
ذرا ٹھہرو ذرا دم لو ابھی فریاد کرتا ہوں

میں اپنے دل کا مالک ہوں مرا دل ایک بستی ہے
کبھی آباد کرتا ہوں کبھی برباد کرتا ہوں

ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں ملاقاتوں کے بعد اکثر
وہ مجھ کو بھول جاتے ہیں میں ان کو یاد کرتا ہوں

خودی کی ابتدا یہ تھی کہ اپنے آپ میں گم تھا
خودی کی انتہا یہ ہے خدا کو یاد کرتا ہوں

بتوں کے عشق میں کھویا گیا ہوں ورنہ اے اخترؔ
خدا شاہد ہے میں اکثر خدا کو یاد کرتا ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse