ابر کیا گھر گھر کے آیا کھل گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ابر کیا گھر گھر کے آیا کھل گیا
by خواجہ محمد وزیر

ابر کیا گھر گھر کے آیا کھل گیا
بس ثبات بحر دنیا کھل گیا

راز دل کتنا چھپایا کھل گیا
حال اس دولت سرا کا کھل گیا

حسن عارض عارضی تھا کھل گیا
خط کے آتے ہی لفافہ کھل گیا

آنکھ سے رومال سرکا بعد مرگ
چشم تر کا آج پردا کھل گیا

تم جو بولے ہو گیا ثابت دہن
باتوں ہی باتوں میں عقدہ کھل گیا

کٹ گیا سر حل ہوئی مشکل مری
ناخن خنجر سے عقدہ کھل گیا

بے زبانی باتیں سنوانے لگی
گالیوں پر منہ تمہارا کھل گیا

تھا قلم بند اپنی آزادی کا حال
خط کو جب اس نے لپیٹا کھل گیا

خط پہ خط لائے جو مرغ نامہ بر
بولے ان مرغوں کا ڈربا کھل گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse