ابر ساں ہر چند رکھا چشم کو پر آب ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ابر ساں ہر چند رکھا چشم کو پر آب ہم
by قاسم علی خان آفریدی

ابر ساں ہر چند رکھا چشم کو پر آب ہم
کر سکے پر کشت الفت کا نہیں شاداب ہم

ہجر کی آتش نے ایسا قرب دل پیدا کیا
بے قرارانہ تڑپتے اب ہیں جوں سیماب ہم

چھا گئیں زلفیں کسی مکھڑے پہ جوں آکاس پوں
خود بخود کھاتے ہیں پیچ و تاب جوں لیلاب ہم

گرد باد آسا پڑے پھرتے ہیں باغ و راغ میں
مسکن و ماویٰ کہاں رکھتے ہیں در یک باب ہم

دیکھ لینے دے تو اپنے کان کا بوندا ہمیں
پھر کہاں پاویں گے ظالم یہ در نایاب ہم

زندگی پھسلا کے لائی یاں ہزار افسوس آہ
پھنس گئے بے طرح اس دنیا کے در خلاب ہم

یاں ہے فکر معیشت واں ہے اندیشہ معاد
ہیں بہ گرداب غم دنیائے دوں غرقاب ہم

منکشف ہوتی حقیقت مرگ گر روز الست
ہرگز اے دہر از عدم کرتے نہیں پیشاب ہم

مت کر افریدیؔ کو اس مسلخ میں پابند آخرش
ذبح ہو جاویں گے تیرے ہاتھ اے قصاب ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse