ابر دیدہ کا مرے ہو جو نہ اوجھڑ پانی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ابر دیدہ کا مرے ہو جو نہ اوجھڑ پانی
by شاد لکھنوی

ابر دیدہ کا مرے ہو جو نہ اوجھڑ پانی
پھر کہیں جھڑکی لگائے نہ کہیں جھڑ پانی

میرے رونے سے دل سنگ جو آب آب نہ ہو
کوہساروں سے گرے پھر نہ دھڑا دھڑ پانی

یہ اندھیرا یہ شب تار کہاں جاؤ گے
دن ہیں برسات کے گلیوں میں ہے کیچڑ پانی

برق انداز نہ کس طرح کروں نالۂ گرم
جان بیتاب ہے بجلی کی طرح تڑ پانی

رشک لعل لب لعلیں سے جگر خوں یاقوت
شرم دنداں سے ہے موتی کی ہر اک لڑ پانی

تیر باراں مژۂ یار مجھے کرتی ہے
میں سمجھتا ہوں برستا ہے جھڑا جھڑ پانی

میں جو اے شادؔ نہ روؤں صفت ابر بہار
پائیں اک قطرہ کہیں جھیل نہ جھابڑ پانی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse