ابر بادل ہے اور سحاب گھٹا
ابر بادل ہے اور سحاب گھٹا
جس کی ہم دیکھتے ہیں آج بہار
کس کو باراں نے تازگی بخشی
زرع کھیتی ہے اور درخت اشجار
کون سی جا ہے سیر کے قابل
باغ روضہ حدیقہ اور گلزار
اب غریبوں کو ہو گئی تسکیں
جو کہ لیتے تھے قرض و وام ادھار
قحط ہے کال اور گدائی بھیک
جس کے مینہ نے مٹا دئیے آثار
جو ندی آب گیر ہے تالاب
مینہ جو برسا تو بھر گئے یک بار
نرخ ہے بھاؤ اور غلہ اناج
سستا ارزاں ہے سوق ہے بازار
مردم و آدمی بشر انسان
فضل باری کے سب ہیں شکر گزار
ہیں کشاورز کاشت کار کسان
خشک سالی سے تھے بہت ناچار
مینہ برستا رہا کئی دن رات
روز و شب صبح و شام لیل و نہار
قطرہ ہے بوند اور مینہ باراں
آب پانی ہے اور بہت بسیار
بوندا باندی یہی ترشح ہے
جیسے ہے آج ننھی ننھی پھوار
کالی کالی گھٹا ہے ابر سیاہ
جو کہ برسا رہی ہے یہ بوچھار
سایہ ہے چھاؤں آفتاب ہے دھوپ
دیکھ آج دھوپ چھاؤں کی یہ بہار
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |