ابر بادل ہے اور سحاب گھٹا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ابر بادل ہے اور سحاب گھٹا
by اسماعیل میرٹھی

ابر بادل ہے اور سحاب گھٹا
جس کی ہم دیکھتے ہیں آج بہار

کس کو باراں نے تازگی بخشی
زرع کھیتی ہے اور درخت اشجار

کون سی جا ہے سیر کے قابل
باغ روضہ حدیقہ اور گلزار

اب غریبوں کو ہو گئی تسکیں
جو کہ لیتے تھے قرض و وام ادھار

قحط ہے کال اور گدائی بھیک
جس کے مینہ نے مٹا دئیے آثار

جو ندی آب گیر ہے تالاب
مینہ جو برسا تو بھر گئے یک بار

نرخ ہے بھاؤ اور غلہ اناج
سستا ارزاں ہے سوق ہے بازار

مردم و آدمی بشر انسان
فضل باری کے سب ہیں شکر گزار

ہیں کشاورز کاشت کار کسان
خشک سالی سے تھے بہت ناچار

مینہ برستا رہا کئی دن رات
روز و شب صبح و شام لیل و نہار

قطرہ ہے بوند اور مینہ باراں
آب پانی ہے اور بہت بسیار

بوندا باندی یہی ترشح ہے
جیسے ہے آج ننھی ننھی پھوار

کالی کالی گھٹا ہے ابر سیاہ
جو کہ برسا رہی ہے یہ بوچھار

سایہ ہے چھاؤں آفتاب ہے دھوپ
دیکھ آج دھوپ چھاؤں کی یہ بہار

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse