ابرو ہے کعبہ آج سے یہ نام رکھ دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ابرو ہے کعبہ آج سے یہ نام رکھ دیا
by شوق قدوائی

ابرو ہے کعبہ آج سے یہ نام رکھ دیا
ہم نے اٹھا کے طاق پہ اسلام رکھ دیا

نشے میں جا گرا جو میں مسجد میں سر کے بل
زاہد نے مجھ پہ سجدے کا الزام رکھ دیا

جھچکا وہ خوف کھا کے تو میں نے تڑپ کے خود
برچھی کی نوک پر دل ناکام رکھ دیا

دلچسپ نام سن کے لگے مانگنے حسیں
کس نے ذرا سے خون کا دل نام رکھ دیا

اتنی تو اس نے کی مری دل سوزیوں کی قدر
تربت پہ اک چراغ سر شام رکھ دیا

جوڑا جو بندھ گیا تو نئے دل کہاں پھنسیں
تو نے ادھر لپیٹ کے کیوں دام رکھ دیا

آنکھ اس ادا سے اس نے دکھائی کہ میں نے شوقؔ
چپکے سے اپنا مے کا بھرا جام رکھ دیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse