ابرو کی تیری ضرب دو دستی چلی گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ابرو کی تیری ضرب دو دستی چلی گئی
by منیرؔ شکوہ آبادی

ابرو کی تیری ضرب دو دستی چلی گئی
جتنی کسائی سیف یہ کستی چلی گئی

پیش نظر حسینوں کی بستی چلی گئی
آئینہ کی بھی حسن پرستی چلی گئی

اچھا کیا شراب خدا نے حرام کی
رندوں کے ساتھ بادہ پرستی چلی گئی

کس شہر سے مثال دوں اقلیم عشق کو
جتنی یہ اجڑی اور بھی بستی چلی گئی

روزے مہ صیام میں توڑے شراب سے
ہم فاقہ مستوں کی وہی مستی چلی گئی

وحشت کدے سے رحمت حق نے بھی کی گریز
بدلے ہمارے گھر سے برستی چلی گئی

کھائیں خدا کی راہ میں لاکھوں ہی ٹھوکریں
تا لا مکاں بلندی و پستی چلی گئی

مستوں نے ترک مے کی قسم کھائی ہے تو کیا
توبہ کہاں وہ بات جو مستی چلی گئی

ان ابرووں نے ایک اشارہ میں جان لی
یک دست تیری تیغ دو دستی چلی گئی

دل ہی گیا تو کون بتوں کا کرے خیال
کعبہ کے ساتھ سنگ پرستی چلی گئی

ہے آسمان تک ترے گریاں کا مضحکہ
بجلی بھی روتے دیکھ کے ہنستی چلی گئی

گو دل کے بدلے دولت دنیا و دیں ملی
تو بھی یہ جنس ہاتھ سے سستی چلی گئی

داغ شراب دامن تقویٰ میں رہ گیا
نشہ کو روح شیخ ترستی چلی گئی

تحت الثرا کو پہنچی ہماری فروتنی
ہم جتنے پست ہو گئے پستی چلی گئی

کیوں کر ہو اجتماع نقیضین اے منیرؔ
آتے ہی موت کے مری ہستی چلی گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse