ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
by فانی بدایونی

ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
صبر رخصت ہو رہا ہے اضطراب آنے کو ہے

قبر پر کس شان سے وہ بے نقاب آنے کو ہے
آفتاب صبح محشر ہم رکاب آنے کو ہے

مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے
عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے

ہائے کیسی کشمکش ہے یاس بھی ہے آس بھی
دم نکل جانے کو ہے خط کا جواب آنے کو ہے

خط کے پرزے نامہ بر کی لاش کے ہم راہ ہیں
کس ڈھٹائی سے مرے خط کا جواب آنے کو ہے

ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے

روح گھبرائی ہوئی پھرتی ہے میری لاش پر
کیا جنازے پر میرے خط کا جواب آنے کو ہے

بھر کے ساقی جام مے اک اور لا اور جلد لا
ان نشیلی انکھڑیوں میں پھر حجاب آنے کو ہے

خانۂ تصویر میں آنے کو ہے تصویر یار
آئنے میں قد آدم آفتاب آنے کو ہے

پھر حنائی ہونے والے ہیں مرے قاتل کے ہاتھ
پھر زبان تیغ پر رنگ شہاب آنے کو ہے

گدگداتا ہے تصور چٹکیاں لیتا ہے درد
کیا کسی بے خواب کی آنکھوں میں خواب آنے کو ہے

دیکھیے موت آئے فانیؔ یا کوئی فتنہ اٹھے
میرے قابو میں دل بے صبر و تاب آنے کو ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse