آیا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اتار بھی
Appearance
آیا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اتار بھی
پستی سے ہم کنار ملے کوہسار بھی
آخر کو تھک کے بیٹھ گئی اک مقام پر
کچھ دور میرے ساتھ چلی رہ گزار بھی
دل کیوں دھڑکنے لگتا ہے ابھرے جو کوئی چاپ
اب تو نہیں کسی کا مجھے انتظار بھی
جب بھی سکوت شام میں آیا ترا خیال
کچھ دیر کو ٹھہر سا گیا آبشار بھی
کچھ ہو گیا ہے دھوپ سے خاکستری بدن
کچھ جم گیا ہے راہ کا مجھ پر غبار بھی
اس فاصلوں کے دشت میں رہبر وہی بنے
جس کی نگاہ دیکھ لے صدیوں کے پار بھی
اے دوست پہلے قرب کا نشہ عجیب تھا
میں سن سکا نہ اپنے بدن کی پکار بھی
رستہ بھی واپسی کا کہیں بن میں کھو گیا
اوجھل ہوئی نگاہ سے ہرنوں کی ڈار بھی
کیوں رو رہے ہو راہ کے اندھے چراغ کو
کیا بجھ گیا ہوا سے لہو کا شرار بھی
کچھ عقل بھی ہے باعث توقیر اے شکیبؔ
کچھ آ گئے ہیں بالوں میں چاندی کے تار بھی
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |