آیا ہے خیال بے وفائی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آیا ہے خیال بے وفائی
by نسیم دہلوی

آیا ہے خیال بے وفائی
کیوں جی وہی گفتگو پھر آئی

او بت نہ سنے گا کوئی میری
کیا تیری ہی ہو گئی خدائی

روکو روکو زبان روکو
دینے نہ لگو کہیں دہائی

صحرا میں ہوئی گہر فشانی
کام آئی مری برہنہ پائی

چاہا لیکن نہ بچ سکے ہم
آخر تیغ نگاہ کھائی

توڑا کانٹوں نے آبلوں کو
برباد ہوئی مری کمائی

بوسہ ہم آج مانگتے ہیں
کرتے ہیں قسمت آزمائی

توبہ شکنی شباب میں کر
کب تک اے جان پارسائی

کاٹا دن تو تڑپ تڑپ کر
آفت کی رات سر پر آئی

رخصت ہے نسیمؔ جلد دیکھو
کر لو گر ہو سکے بھلائی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse