آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
by جگر مراد آبادی

آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے

دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے

ہر سو دکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے

ملتی نہیں ہے لذت درد جگر مجھے
بھولی ہوئی نہ ہو نگہ فتنہ گر مجھے

ڈالا ہے بے خودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے

کرنا ہے آج حضرت ناصح سے سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے

مستانہ کر رہا ہوں رہ عاشقی کو طے
لے جائے جذب شوق مرا اب جدھر مجھے

ڈرتا ہوں جلوۂ رخ جاناں کو دیکھ کر
اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے

یکساں ہے حسن و عشق کی سر مستیوں کا رنگ
ان کی خبر انہیں ہے نہ میری خبر مجھے

مرنا ہے ان کے پاؤں پہ رکھ کر سر نیاز
کرنا ہے آج قصۂ غم مختصر مجھے

سینے سے دل عزیز ہے دل سے ہو تم عزیز
سب سے مگر عزیز ہے تیری نظر مجھے

میں دور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے

کیا جانئے قفس میں رہے کیا معاملہ
اب تک تو ہیں عزیز مرے بال و پر مجھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse