آیا نہیں جو کر کر اقرار ہنستے ہنستے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آیا نہیں جو کر کر اقرار ہنستے ہنستے
by نظیر اکبر آبادی

آیا نہیں جو کر کر اقرار ہنستے ہنستے
جل دے گیا ہے شاید عیار ہنستے ہنستے

اتنا نہ ہنس دل اس سے ایسا نہ ہو کہ چنچل
لڑنے کو تجھ سے ہووے تیار ہنستے ہنستے

لے کر صریح دل کو وہ گل عذار یارو
ظاہر کرے ہے کیا کیا انکار ہنستے ہنستے

ہنس ہنس کے چھیڑ اس کو زنہار تو نہ اے دل
ہوگا گلے کا تیرے یہ ہار ہنستے ہنستے

ہنسنے کی آن دکھلا لیتا ہے دل کو گل رو
کرتا ہے شوخ یارو بے کار ہنستے ہنستے

جھنجھلا کے حال دل کا کہنا نہیں روا ہے
لائق یہاں تو کرنا انکار ہنستے ہنستے

دستار سرخ سج کر طرہ زری کا رکھ کر
آیا جو دل کو لینے دل دار ہنستے ہنستے

آنکھیں لڑا کے اس نے ہنس کر نگہ کی ایسی
جو لے گیا دل آخر خونخوار ہنستے ہنستے

آیا ہے دیکھنے کو تیرے نظیرؔ اے گل
دکھلا دے ٹک تو اس کو دیدار ہنستے ہنستے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse