آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
by مرزا غالب

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک

تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک

پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک

یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse