آہ کب لب پر نہیں ہے داغ کب دل میں نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آہ کب لب پر نہیں ہے داغ کب دل میں نہیں
by مظفر علی اسیر

آہ کب لب پر نہیں ہے داغ کب دل میں نہیں
کون سی شب ہے کہ گرمی اپنی محفل میں نہیں

بزم کی کثرت سے اندیشہ مرے دل میں نہیں
دل میں اس کی ہے جگہ میرے جو محفل میں نہیں

پنجۂ مژگان تر نے یہ اڑائیں دھجیاں
تار باقی ایک بھی دامان ساحل میں نہیں

خون ناحق کا ہمارے داغ مٹنے کا نہیں
تیغ میں ہوگا اگر دامان قاتل میں نہیں

پردہ دار چہرۂ یوسف نہیں ہے ہر نقاب
حسن لیلیٰ جلوہ گر ہر ایک محفل میں نہیں

نجد کا صحرا عجب صحرائے وحشت خیز ہے
قیس کیا لیلیٰ کو بھی آرام منزل میں نہیں

جس طرف جی چاہے گا میرا نکل جاؤں گا میں
سیکڑوں دروازے ہیں حلقے سلاسل میں نہیں

حد سے باہر پاؤں جو رکھتا ہے ہوتا ہے خراب
گھر میں جو راحت مسافر کو ہے منزل میں نہیں

ڈوبتے جاتے ہیں کیوں کر لوگ حیرت ہے مجھے
قد آدم آب بحر تیغ قاتل میں نہیں

ہو گیا دہشت سے ایسا بسملوں کا خون خشک
ایک بھی دھبا لہو کا تیغ قاتل میں نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.