آہ وہ شعلہ ہے جو جی کو بجھا کے اٹھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آہ وہ شعلہ ہے جو جی کو بجھا کے اٹھے
by برجموہن دتاتریہ کیفی

آہ وہ شعلہ ہے جو جی کو بجھا کے اٹھے
درد وہ فتنہ ہے جو دل کو بٹھا کے اٹھے

آپ کی یاد میں ہم اے صنم غفلت کیش
ایسے بیٹھے کہ قیامت ہی اٹھا کے اٹھے

ایک دزدیدہ نظر سے مرا دل چھین کے واہ
تم کدھر کو مری جاں آنکھ بچا کے اٹھے

عرصۂ حشر تک اک لگ گیا تانتا ان کا
مردے قبروں سے جو تیرے شہدا کے اٹھے

رمضاں کیونکہ برس بھر کو سمجھ بیٹھیں ہم
آئے دن کے بھی کسی سے یہ کڑاکے اٹھے

دل نشیں رحمت حق جب سے ہوئی ہے کیفیؔ
دغدغے دل سے مرے روز جزا کے اٹھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse