آہ ملتے ہی پھر جدائی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آہ ملتے ہی پھر جدائی کی
by میر محمدی بیدار

آہ ملتے ہی پھر جدائی کی
واہ کیا خوب آشنائی کی

نہ گئی تیری سرکشی ظالم
ہم نے ہر چند جبہ سائی کی

دل نہیں اپنے اختیار میں آج
کیا مگر تو نے آشنائی کی

در پہ اے یار تیرے آ پہنچے
تپش دل نے رہنمائی کی

قابل سجدہ تو ہی ہے اے بت
سیر کی ہم نے سب خدائی کی

جو مقید ہیں تیری الفت کے
آرزو کب انہیں رہائی کی

جی میں بیدارؔ کھپ گئی میرے
خندق اس پنجۂ حنائی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse