آہ جو دل سے نکالی جائے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آہ جو دل سے نکالی جائے گی
by اکبر الہ آبادی

آہ جو دل سے نکالی جائے گی
کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی

اس نزاکت پر یہ شمشیر جفا
آپ سے کیوں کر سنبھالی جائے گی

کیا غم دنیا کا ڈر مجھ رند کو
اور اک بوتل چڑھا لی جائے گی

شیخ کی دعوت میں مے کا کام کیا
احتیاطاً کچھ منگا لی جائے گی

یاد ابرو میں ہے اکبرؔ محو یوں
کب تری یہ کج خیالی جائے گی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse