آہوں سے ہوں گے گنبد ہفت آسماں خراب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آہوں سے ہوں گے گنبد ہفت آسماں خراب
by امداد علی بحر

آہوں سے ہوں گے گنبد ہفت آسماں خراب
کس کس مکان کو نہ کرے گا دھواں خراب

مر کر بھی اپنے ساتھ رہیں ہرزہ گردیاں
ہے مشت خاک صورت ریگ رواں خراب

قامت وہ ہے کہ جس سے قیامت ہے آشکار
نقشہ وہ ہے کہ جس سے ہے نقش جہاں خراب

تاب و تواں کو جسم میں یوں ڈھونڈھتی ہے روح
جیسے غبار راہ پس کارواں خراب

ناساز ہو مزاج تو باتوں میں کیا مزا
بیمار کی طرح ہے زبان و دہاں خراب

زیور زوال حسن میں پہنا تو کیا بہار
پتے سنہرے صورت برگ خزاں خراب

قطمیر سے کروں گا سگ یار کا گلا
مرقد کے غار میں جو ہوئیں ہڈیاں خراب

اے بحرؔ تجھ کو ڈھونڈ پھرے شش جہت میں ہم
تیرا پتا کہیں بھی ہے او خانماں خراب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse