آں سے ظالم کا امتحاں اور میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آں سے ظالم کا امتحاں اور میں
by قربان علی سالک بیگ

آں سے ظالم کا امتحاں اور میں
یہ ستم تیرے آسماں اور میں

کبھی کہتا ہوں اب وہ آتے ہیں
کبھی کہتا ہوں وہ کہاں اور میں

بے قراری دلا رہی ہے یاد
ہائے وہ تیری شوخیاں اور میں

نہیں سنتا کوئی کسی کی جہاں
غم ہجراں کی داستاں اور میں

آخر آ ہی گئی فغاں لب پر
ضبط راز غم نہاں اور میں

چرخ بھولا ہوا ہے کیا گردش
یار کے گھر میں میہماں اور میں

کچھ کہے جاؤ کچھ سنے جاؤ
تم سے دو چار بد گماں اور میں

وہ گلی اور رات بھر پھرنا
دور باش نگہ یاں اور میں

فکر دشواریٔ مطالب میں
ایک بیچارہ راز داں اور میں

آئنے ورنہ دیکھ لیجئے گا
ہر جگہ آپ کا بیاں اور میں

پوچھ سالکؔ نہ میرا گھر مجھ سے
رات دن ہے در بتاں اور میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse