آگ کے درمیان سے نکلا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آگ کے درمیان سے نکلا
by شکیب جلالی

آگ کے درمیان سے نکلا
میں بھی کس امتحان سے نکلا

پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے
پھر دھواں گلستان سے نکلا

جب بھی نکلا ستارۂ امید
کہر کے درمیان سے نکلا

چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں
کوئی سایہ مکان سے نکلا

ایک شعلہ پھر اک دھویں کی لکیر
اور کیا خاکدان سے نکلا

چاند جس آسمان میں ڈوبا
کب اسی آسمان سے نکلا

یہ گہر جس کو آفتاب کہیں
کس اندھیرے کی کان سے نکلا

شکر ہے اس نے بے وفائی کی
میں کڑے امتحان سے نکلا

لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیبؔ
کام جس مہربان سے نکلا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse