آگے کچھ اس کے ذکر دل زار مت کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آگے کچھ اس کے ذکر دل زار مت کرو
by قائم چاندپوری

آگے کچھ اس کے ذکر دل زار مت کرو
سب خیریت ہے اس سے کچھ اظہار مت کرو

جانے دو جو نصیب میں ہونا تھا سو ہوا
یارو خدا کے واسطے تکرار مت کرو

آئینہ لے کے پہلے تنک سج تو دیکھ لو
ملنے کا غیر کے ابھی انکار مت کرو

سر چڑھ رہا ہے کال یوں ہی عاشقوں کے یاں
پٹی سے تم یہ بال نمودار مت کرو

اے آہ و نالہ چھپ کے میں آیا ہوں اس جگہ
عالم کو شور کر کے خبردار مت کرو

اپنی بساط میں تو یہی جنس دل ہے یاں
گو اب پسند اس کو خریدار مت کرو

پیارے کمر کہاں ہے تمہارے یوں ہی بہ ظن
سن کر کسی سے جھوٹ پر اصرار مت کرو

قائمؔ وہ تب کہے تھا شب احوال خلق دیکھ
مجھ سا تو حق کسی کو طرحدار مت کرو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse