آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب
by حفیظ جونپوری

آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب
پھر رقیبوں سے مجھ کو کیا مطلب

آرزو میرے دل کی بر آئے
سب کا پورا کرے خدا مطلب

کر نہ مجھ کو سبک رقیبوں میں
یوں ہنسی میں نہ تو اڑا مطلب

رک گئی بات تا زباں آ کر
دل کا دل ہی میں رہ گیا مطلب

ضد ہی ضد شیخ و برہمن کی تھی
ورنہ دونوں کا ایک تھا مطلب

میری اک بات میں ہیں سو پہلو
اور سب کا جدا جدا مطلب

غیر کی اور اس قدر تعریف
ہم سمجھتے ہیں آپ کا مطلب

اگلی باتوں کا ذکر جانے دو
آج اس تذکرے سے کیا مطلب

خوش ہو نافہم بھی سمجھ کے حفیظؔ
صاف ایسا ہو شعر کا مطلب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse