آپ کے پہلو میں دشمن سو چکا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آپ کے پہلو میں دشمن سو چکا
by ریاض خیرآبادی

آپ کے پہلو میں دشمن سو چکا
جائیے ہونا تھا جو کچھ ہو چکا

ہنستی ہے تقدیر ہنس لے ان کے ساتھ
دل مجھے میں اپنے دل کو رو چکا

ہاتھ رکھا میں نے سوتے میں کہاں
بولے وہ جھنجھلا کے اب میں سو چکا

حشر میں آنا تھا پہلے سے ہمیں
ہم کب آئے جب تماشا ہو چکا

خار اس دل نے مجھے کیا کیا دیے
میرے حق میں یہ بھی کانٹے ہو چکا

اب جو گھٹتا ہے گھٹے طوفان اشک
اپنی قسمت کا لکھا میں دھو چکا

بک گیا عمامہ ہو کر رہن مے
بوجھ اترا سر سے جھگڑا تو چکا

توبہ کی عصیاں سے اب پوچھے گا کون
جمع کی تھی جتنی دولت کھو چکا

آفتاب حشر کب چمکا ریاضؔ
داغ مے دامن سے جب میں دھو چکا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse