آپ کے محرم اسرار تھے اغیار کہ ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آپ کے محرم اسرار تھے اغیار کہ ہم
by قلق میرٹھی

آپ کے محرم اسرار تھے اغیار کہ ہم
دل غم ناک کے تم رہتے تھے غم خوار کہ ہم

شکوہ آلود نصیحت نہیں اچھی ناصح
آپ ہیں کشتۂ بیداد ستم گار کہ ہم

حشر اگر کہوے مددگار ہمارا ہے کون
بول اٹھے صاف ترا فتنۂ رفتار کہ ہم

آپ کی شان کا سامان کہاں سے آیا
یوسف حسن کے تھے آپ خریدار کہ ہم

ہم برا غیر سے ملنے کو سمجھتے تھے کہ تم
اپنے مطلب کے ہیں اغیار طلب گار کہ ہم

ہائے بے رحمیٔ دلدار سے بے قدری جان
زیست سے آپ ہماری ہوئے بیزار کہ ہم

جانتے ہم ہیں برا ربط جتانے کو کہ غیر
ہوں گے مشہور ہوس ناک ترے یار کہ ہم

قتل کیا ہو کوئی خنجر میں نہیں طرز نگاہ
داد اے عشق ہے جلاد گنہ گار کہ ہم

نہ محبت کی خبر اس کو نہ ہم کو اس کی
سادگی کہہ تو سہی یار ہے عیار کہ ہم

روز و شب میرے پھرانے کو پھرے جاتا ہے
چرخ ہے گردش بے کار سے ناچار کہ ہم

ہو کے پامال ٹھکانے سے لگی خاک اپنی
تو ہے آشفتہ سر کوچہ و بازار کہ ہم

ان کو تم چاہتے ہو آپ کو ہم چاہتے ہیں
لائق رحم ہیں فرمائیے اغیار کہ ہم

اے قلقؔ پاؤں زمیں پر نہیں رکھتا مغرور
چرخ ہے خاک در حیدر کرار کہ ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse