آپ کیوں بیٹھے ہیں غصے میں مری جان بھرے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آپ کیوں بیٹھے ہیں غصے میں مری جان بھرے
by مضطر خیرآبادی

آپ کیوں بیٹھے ہیں غصے میں مری جان بھرے
یہ تو فرمائیے کیا زلف نے کچھ کان بھرے

جان سے جائے اگر آپ کو چاہے کوئی
دم نکل جائے جو دم آپ کا انسان بھرے

لیے پھرتے ہیں ہم اپنے جگر و دل دونوں
ایک میں درد بھرے ایک میں ارمان بھرے

دامن دشت نے آنسو بھی نہ پوچھے افسوس
میں نے رو رو کے لہو سیکڑوں میدان بھرے

تیغ قاتل کو گلے سے جو لگایا مضطرؔ
کھنچ کے بولی کہ بڑے آئے تم ارمان بھرے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse