آپ وہ سب کی جان لیتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آپ وہ سب کی جان لیتے ہیں
by نسیم بھرتپوری

آپ وہ سب کی جان لیتے ہیں
موت کو مفت سان لینے ہیں

دل بھلا عاشقوں کے پاس کہاں
آپ ہی چھین چھان لیتے ہیں

کیا کہوں کون جان لیتا ہے
وہ مرے مہربان لیتے ہیں

میکدے کے قریب ہم واعظ
تیری ضد سے مکان لیتے ہیں

اب تو یہ حال ہے نسیمؔ ان کا
جو میں کہنا ہوں مان لیتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse