آپ آئے تو خیال دل ناشاد آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آپ آئے تو خیال دل ناشاد آیا
by ریاض خیرآبادی

آپ آئے تو خیال دل ناشاد آیا
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

عرش سے آج اثر تا لب فریاد آیا
ایک ہی آہ میں کافر کو خدا یاد آیا

جور کے ساتھ تیرا لطف بھی کچھ یاد آیا
ہونٹ پر بن کے ہنسی شکوۂ بیداد آیا

آج شب میں کوئی سو بار تو بجلی چمکی
آج دن میں کوئی سو بار تو صیاد آیا

میرے دل میں عجب انداز سے آیا ناوک
میں یہ سمجھا کوئی معشوق پری زاد آیا

کیا کہا پھر تو کہو بھول گئے ہم کس کو
صدقے اس کے جو تمہیں بھول کے یوں یاد آیا

فتنۂ حشر نے بھی اٹھ کے بلائیں لے لیں
عجب انداز سے میرا ستم ایجاد آیا

سن سے جھونکا کوئی آیا جو ترا باد بہار
چونک اٹھے مرغ چمن ناوک صیاد آیا

ارے قاتل ابھی بہہ جائے گا پانی ہو کر
سامنے میرے اگر خنجر فولاد آیا

یہی گلشن کی ہوا ہے یہی گلشن کی بہار
کبھی صیاد کبھی ناوک بیداد آیا

نظر آتی ہیں کہیں ایسی بھی کافر شکلیں
دیکھ کر حسن خداداد خدا یاد آیا

پاس سے نیم نگہ دور سے مژگان دراز
چبھنے والے نئے نشتر لئے فصاد آیا

نہ سنا ہم نے کبھی باغ میں آئی ہے بہار
جو سنا بھی تو سنا ہم نے کہ صیاد آیا

کیوں نگاہیں یہ گڑھی ہیں شکن دامن پر
صدقے انداز حیا کے تجھے دل یاد آیا

آشیاں برق کو سونپا مجھے آئی جو ترنگ
اور میں اڑ کے ادھر تا کف صیاد آیا

اثر آیا بھی تو جیسے کوئی فریادی ہو
ہاتھ میں تھامے ہوئے دامن فریاد آیا

دست ماتم لئے بیٹھی رہی شیریں اپنے
تیشہ اچھا کہ ترے کام تو فرہاد آیا

ایسی ضد ہے تو انہیں کون منائے یا رب
وہ یہ مچلے ہیں کہ کوئی مجھے کیوں یاد آیا

لئے خنجر کی روانی تھی ہر اک موج خرام
آج مقتل میں نئی شان سے جلاد آیا

میں جو پہنچا تو لئے اٹھ کے بگولوں نے قدم
نجد میں دھوم مچی قیس کا استاد آیا

بڑھ کے لے حلقۂ آغوش میں اے دست جنوں
بیڑیاں کاٹنے کس لطف سے حداد آیا

ڈر کے صحرائے بلا سے جو پکارا میں نے
قیس نے دی مجھے آواز کہ فرہاد آیا

صدقے ہونٹوں کے جنہیں ناز مسیحائی ہے
صدقے باتوں کے جنہیں شیوۂ جلاد آیا

دے اٹھیں خون رگیں نام جو نشتر کا لیا
رنگ ایسا مری تصویر میں بہزاد آیا

طفل اشک آ کے مری گود میں مچلے جو ریاضؔ
دل مرحوم مجھے آج بہت یاد آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse