آن کر غم کدۂ دہر میں جو بیٹھے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آن کر غم کدۂ دہر میں جو بیٹھے ہم
by میر حسن دہلوی

آن کر غم کدۂ دہر میں جو بیٹھے ہم
شمع ساں اپنے تئیں آپ ہی رو بیٹھے ہم

عشق کے ہاتھ سے کشتیٔ شکستہ کی طرح
آپ اپنے تئیں رو رو کے ڈبو بیٹھے ہم

گر یہی تیرے اشارے ہیں تو مجلس سے تری
کوئی نہ کوئی آ کے اٹھا دیوے گا گو بیٹھے ہم

تم جو اٹھنے کو ہوئے تھے تو چلے تھے ہم بھی
اب جو یوں آپ کی مرضی ہے تو لو بیٹھے ہم

سینہ خالی نہیں ہوتا ہے نہ تھمتے ہیں اشک
کب سے روتے ہیں دل خوں شدہ کو بیٹھے ہم

غیر کہتے ہیں کہ ہم بیٹھنے دیویں گے نہ یاں
اب تو اس ضد سے جو کچھ ہووے سو ہو بیٹھے ہم

اشک آنکھوں سے تو معدوم ہوئے تھے کد کے
ہاتھ اب گریۂ خونی سے بھی دھو بیٹھے ہم

اور تو کچھ نہیں یاں اتنا خفا ہوتے ہو کیوں
کیا ہوا آپ کے نزدیک جو ہو بیٹھے ہم

آرزو دل کی بر آئی نہ حسنؔ وصل میں اور
لذت ہجر کو بھی مفت میں کھو بیٹھے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse