آن رکھتا ہے عجب یار کا لڑ کر چلنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آن رکھتا ہے عجب یار کا لڑ کر چلنا
by نظیر اکبر آبادی

آن رکھتا ہے عجب یار کا لڑ کر چلنا
ہر قدم ناز کے غصے میں اکڑ کر چلنا

جتنے بن بن کے نکلتے ہیں صنم نام خدا
سب میں بھاتا ہے مجھے اس کا بگڑ کر چلنا

ناتوانی کا بھلا ہو جو ہوا مجھ کو نصیب
اس کی دیوار کی اینٹوں کو رگڑ کر چلنا

اس کی کاکل ہے بری مان کہا اے افعی
دیکھیو اس سے تو کاندھا نہ رگڑ کر چلنا

چلتے چلتے نہ خلش کر فلک دوں سے نظیرؔ
فائدہ کیا ہے کمینے سے جھگڑ کر چلنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse