آنے میں جھجھک ملنے میں حیا تم اور کہیں ہم اور کہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنے میں جھجھک ملنے میں حیا تم اور کہیں ہم اور کہیں
by آرزو لکھنوی

آنے میں جھجھک ملنے میں حیا تم اور کہیں ہم اور کہیں
اب عہد وفا ٹوٹا کہ رہا تم اور کہیں ہم اور کہیں

بے آپ خوشی سے ایک ادھر کچھ کھویا ہوا سا ایک ادھر
ظاہر میں بہم باطن میں جدا تم اور کہیں ہم اور کہیں

آئے تو خوشامد سے آئے بیٹھے تو مروت سے بیٹھے
ملنا ہی یہ کیا جب دل نہ ملا تم اور کہیں ہم اور کہیں

وعدہ بھی کیا تو کی نہ وفا آتا ہے تمہیں چرکوں میں مزا
چھوڑو بھی یہ ضد لطف اس میں ہے کیا تم اور کہیں ہم اور کہیں

برگشتہ نصیب کا یوں ہونا سونا بھی تو اک کروٹ سونا
کب تک یہ جدائی کا رونا تم اور کہیں ہم اور کہیں

دل ملنے پہ بھی پہلو نہ ملا دشمن تو بغل ہی میں ہے چھپا
قاتل ہے محبت کی یہ حیا تم اور کہیں ہم اور کہیں

یکسوئی دل مرغوب ہمیں بربادئ دل مطلوب تمہیں
اس ضد کا ہے اور انجام ہی کیا تم اور کہیں ہم اور کہیں

دل سے ہے اگر قائم رشتہ تو دور و قریب کی بحث ہی کیا
ہے یہ بھی نگاہوں کا دھوکا تم اور کہیں ہم اور کہیں

سن رکھو قبل عہد وفا قول آرزوئے شیدائی کا
جنت بھی ہے دوزخ گر یہ ہوا تم اور کہیں ہم اور کہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse