آنے دو اپنے پاس مجھ کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنے دو اپنے پاس مجھ کو
by میر محمدی بیدار

آنے دو اپنے پاس مجھ کو
کرنا ہے کچھ التماس مجھ کو

تیرے یہ جور کب سہوں میں
گر عشق کا ہو نہ پاس مجھ کو

دو طفل مزاج شیشہ دل میں
کس طرح نہ ہو ہراس مجھ کو

لگتا ہے نہ گھر میں دل نہ باہر
کس نے یہ کیا اداس مجھ کو

کیا حال کہوں کہ دیکھ اس کو
رہتے ہی نہیں حواس مجھ کو

اے نکہت گل پری ہی رہ تو
آنا ہے اسی کے پاس مجھ کو

منہ پھیرا بھی نہ اس طرف سے
ٹک ہونے دے روشناس مجھ کو

اٹھ جاؤں گا ایک دن خفا ہو
یہاں تک نہ کرو اداس مجھ کو

گر ہیں یہی جور اس کے بیدارؔ
بچنے کی نہیں ہے آس مجھ کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse