آنکھ پڑتے ہی نہ تھا نام شکیبائی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھ پڑتے ہی نہ تھا نام شکیبائی کا
by ثاقب لکھنوی

آنکھ پڑتے ہی نہ تھا نام شکیبائی کا
در مے خانہ تھا نقشہ تری انگڑائی کا

ماسوا اس کے نہیں جس کا کوئی اور شریک
کون بتلائے گا عالم مری تنہائی کا

پاک دامانیٔ یوسف تھی زلیخا کی سزا
راستہ چاک سے پیدا ہوا رسوائی کا

سختیاں ہمت دل ہو تو بدل جاتی ہیں
موت اک کھیل ہے لیکن ترے شیدائی کا

ہم کو ان مے کدۂ دہر سے امید نہیں
ساغر الٹا ہوا ہے گنبد بینائی کا

تار ملبوس میں تھی یا خط تقدیر میں تھی
حال کھلتا نہیں یعقوب کی بینائی کا

آنے دے نیند تو سب سوئیں مگر اے توبہ
نالۂ‌ عشق کا اس پر شب تنہائی کا

دل نازک متحمل نہیں غم ہو کہ سرور
پھول مقتول ہے خود اپنی ہی رعنائی کا

نہ ہوا وصل تمنا نہ گھٹی وحشت دل
کیا نتیجہ تھا مری بادیہ پیمائی کا

وہ نہ آئیں سر بالیں کہ میں بچنے کا نہیں
دم نہ ٹوٹے مرے ساتھ ان کی مسیحائی کا

آئنہ جس میں سدا ڈوب کے ابھرا کیا حسن
ایک ٹھہرا ہوا پانی ہے خود آرائی کا

ساتھ دینے کا تو احسان ہے مجھ پر لیکن
شمع نے نام ڈبویا مری تنہائی کا

حسن کے ہاتھ بندھے تو وہ ذرا دیر سہی
مجھ پر احساں تری آئی ہوئی انگڑائی کا

اس کے سننے کے لئے جمع ہوا ہے محشر
رہ گیا تھا جو فسانہ مری رسوائی کا

شوق پا بوسیٔ محبوب تھا ورنہ ثاقبؔ
سنگ در پر کوئی موقع تھا جبیں سائی کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse