آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتا ہے
by محمد علی تشنہ

آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتا ہے
سب کی ہے تم کو خبر اپنی خبر کچھ بھی نہیں

شمع ہے گل بھی ہے بلبل بھی ہے پروانہ بھی
رات کی رات یہ سب کچھ ہے سحر کچھ بھی نہیں

حشر کی دھوم ہے سب کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے
فتنہ ہے اک تری ٹھوکر کا مگر کچھ بھی نہیں

نیستی کی ہے مجھے کوچۂ ہستی میں تلاش
سیر کرتا ہوں ادھر کی کہ جدھر کچھ بھی نہیں

لا مکاں میں بھی تو اک جلوہ نظر آتا ہے
بے کسی میں تو ادھر ہوں کہ جدھر کچھ بھی نہیں

ایک آنسو بھی اثر جب نہ کرے اے تشنہؔ
فائدہ رونے سے اب دیدۂ تر کچھ بھی نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse