آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے
by وحشت کلکتوی

آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے
یہ میسر ہو تو پھر کیوں کوئی ناشاد رہے

اس زمانے میں خموشی سے نکلتا نہیں کام
نالہ پر شور ہو اور زوروں پہ فریاد رہے

درد کا کچھ تو ہو احساس دل انساں میں
سخت ناشاد ہے دائم جو یہاں شاد رہے

اے ترے دام محبت کے دل و جاں صدقے
شکر ہے قید علائق سے ہم آزاد رہے

نالہ ایسا ہو کہ ہو اس پہ گمان نغمہ
رہے اس طرح اگر شکوۂ بیداد رہے

ہر طرف دام بچھائے ہیں ہوس نے کیا کیا
کیا یہ ممکن ہے یہاں کوئی دل آزاد رہے

جب یہ عالم ہو کہ منڈلاتی ہو ہر سمت کو برق
کیوں کوئی نوحہ گر خرمن برباد رہے

اب تصور میں کہاں شکل تمنا وحشتؔ
جس کو مدت سے نہ دیکھا ہو وہ کیا یاد رہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse