آنکھ سے دل میں آنے والا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھ سے دل میں آنے والا
by آرزو لکھنوی

آنکھ سے دل میں آنے والا
دل سے نہیں اب جانے والا

گھر کو پھونک کے جانے والا
پھر کے نہیں ہے آنے والا

دوست تو ہے نادان ہے لیکن
بے سمجھے سمجھانے والا

آنسو پونچھ کے ہنس دیتا ہے
آگ میں آگ لگانے والا

ہے جو کوئی تو دھیان اسی کا
آنے والا جانے والا

حسن کی بستی میں ہے یارو
کوئی ترس بھی کھانے والا

ڈال رہا ہے کام میں مشکل
مشکل میں کام آنے والا

دی تھی تسلی یہ کس دل سے
چپ نہ ہوا چلانے والا

خواب کے پردے میں آتا ہے
سوتا پا کے جگانے والا

اک دن پردہ خود الٹے گا
چھپ چھپ کے ترسانے والا

آرزوؔ ان کے آگے ہے چپ کیوں
تم سا باتیں بنانے والا


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.