آنکھ جب ساقی پہ ڈالی جائے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھ جب ساقی پہ ڈالی جائے گی
by صفدر مرزا پوری

آنکھ جب ساقی پہ ڈالی جائے گی
پھر طبیعت کیا سنبھالی جائے گی

چٹکیاں لینے کی وہ کرتے ہیں مشق
شوخیوں میں جان ڈالی جائے گی

کیوں پریشاں کر رہی ہے باغ میں
بوئے گل تجھ سے صبا لی جائے گی

ہم ادھر ہیں سامنے ہے آئنہ
آنکھ کس کس پر نکالی جائے گی

پھول کیسے مر مٹوں کی قبر پر
خاک بھی تم سے نہ ڈالی جائے گی

دیکھنے ہی کو ہے بس ساقی کی آنکھ
مے نہ اس ساغر میں ڈالی جائے گی

دم نکل جائے گا حسرت سے مرا
تیغ قاتل کی جو خالی جائے گی

دل اگر ٹوٹا تو پھر بیکار ہے
زلف بگڑے گی بنا لی جائے گی

کیوں گلے ملتی نہیں وہ تیغ ناز
عید کیا اب کی بھی خالی جائے گی

کوئی کہتا ہے کہ صفدرؔ یہ غزل
نور کے سانچے میں ڈھالی جائے گی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse