آنکھ اٹھائی نہیں وہ سامنے سو بار ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھ اٹھائی نہیں وہ سامنے سو بار ہوئے
by مفتی صدر الدین خان آزردہ

آنکھ اٹھائی نہیں وہ سامنے سو بار ہوئے
ہجر میں ایسے فرامش گر دیدار ہوئے

کامل اس فرقۂ زہاد میں اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے

نہ اٹھی بیٹھ کے خاک اپنی ترے کوچے میں
ہم نہ یاں دوش ہوا کے بھی کبھی یار ہوئے

صبح لے آئنہ اس بت کو دکھایا ہم نے
رات اغیار سے ملنے کے جو انکار ہوئے

کچھ تعجب نہیں گر اب کے فلک ٹوٹ پڑے
آج نالے جو کوئی اور بھی دو چار ہوئے

مصر میں آج تجھے دیکھ کے پچھتائے ہیں
سادہ لوحی سے جو یوسف کے خریدار ہوئے

مبتذل میں ہی تو ہوں آپ جو کہیے سچ ہے
رات جھگڑے تو مجھی پر سر بازار ہوئے

یہ ہیں آزردہؔ جو کہتے ہوئے شیاً اللہ
آج دریوزہ گر خانۂ خمار ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse