آنکھ اٹھائی نہیں وہ سامنے سو بار ہوئے
Appearance
آنکھ اٹھائی نہیں وہ سامنے سو بار ہوئے
ہجر میں ایسے فرامش گر دیدار ہوئے
کامل اس فرقۂ زہاد میں اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے
نہ اٹھی بیٹھ کے خاک اپنی ترے کوچے میں
ہم نہ یاں دوش ہوا کے بھی کبھی یار ہوئے
صبح لے آئنہ اس بت کو دکھایا ہم نے
رات اغیار سے ملنے کے جو انکار ہوئے
کچھ تعجب نہیں گر اب کے فلک ٹوٹ پڑے
آج نالے جو کوئی اور بھی دو چار ہوئے
مصر میں آج تجھے دیکھ کے پچھتائے ہیں
سادہ لوحی سے جو یوسف کے خریدار ہوئے
مبتذل میں ہی تو ہوں آپ جو کہیے سچ ہے
رات جھگڑے تو مجھی پر سر بازار ہوئے
یہ ہیں آزردہؔ جو کہتے ہوئے شیاً اللہ
آج دریوزہ گر خانۂ خمار ہوئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |