آنکھ اس پرجفا سے لڑتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھ اس پرجفا سے لڑتی ہے
by محمد ابراہیم ذوق

آنکھ اس پرجفا سے لڑتی ہے
جان کشتی قضا سے لڑتی ہے

شعلہ بھڑکے نہ کیوں کہ محفل میں
شمع تجھ بن ہوا سے لڑتی ہے

قسمت اس بت سے جا لڑی اپنی
دیکھو احمق خدا سے لڑتی ہے

شور قلقل یہ کیوں ہے دختر رز
کیا کسی پارسا سے لڑتی ہے

نہیں مژگاں کی دو صفیں گویا
اک بلا اک بلا سے لڑتی ہے

نگۂ ناز اس کی عاشق سے
چھوٹ کس کس ادا سے لڑتی ہے

تیرے بیمار کے سر بالیں
موت کیا کیا شفا سے لڑتی ہے

زال دنیا نے صلح کی کس دن
یہ لڑاکا سدا سے لڑتی ہے

واہ کیا کیا طبیعت اپنی بھی
عشق میں ابتدا سے لڑتی ہے

دیکھ اس چشم مست کی شوخی
جب کسی پارسا سے لڑتی ہے

تیری شمشیر خوں کے چھینٹوں سے
چھینٹے آب بقا سے لڑتی ہے

سچ ہے الحرب خدعۃ اے ذوقؔ
نگہ اس کی دغا سے لڑتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse