آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جائے تو اچھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جائے تو اچھا
by محمد ابراہیم ذوق

آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جائے تو اچھا
ہے حسرت پابوس نکل جائے تو اچھا

جو چشم کہ بے نم ہو وہ ہو کور تو بہتر
جو دل کہ ہو بے داغ وہ جل جائے تو اچھا

بیمار محبت نے لیا تیرے سنبھالا
لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا

ہو تجھ سے عیادت جو نہ بیمار کی اپنے
لینے کو خبر اس کی اجل جائے تو اچھا

کھینچے دل انساں کو نہ وہ زلف سیہ فام
اژدر کوئی گر اس کو نگل جائے تو اچھا

تاثیر محبت عجب اک حب کا عمل ہے
لیکن یہ عمل یار پہ چل جائے تو اچھا

دل گر کے نظر سے تری اٹھنے کا نہیں پھر
یہ گرنے سے پہلے ہی سنبھل جائے تو اچھا

فرقت میں تری تار نفس سینے میں میرے
کانٹا سا کھٹکتا ہے نکل جائے تو اچھا

اے گریہ نہ رکھ میرے تن خشک کو غرقاب
لکڑی کی طرح پانی میں گل جائے تو اچھا

ہاں کچھ تو ہو حاصل ثمر نخل محبت
یہ سینہ پھپھولوں سے جو پھل جائے تو اچھا

وہ صبح کو آئے تو کروں باتوں میں دوپہر
اور چاہوں کہ دن تھوڑا سا ڈھل جائے تو اچھا

ڈھل جائے جو دن بھی تو اسی طرح کروں شام
اور چاہوں کہ گر آج سے کل جائے تو اچھا

جب کل ہو تو پھر وہ ہی کہوں کل کی طرح سے
گر آج کا دن بھی یوں ہی ٹل جائے تو اچھا

القصہ نہیں چاہتا میں جائے وہ یاں سے
دل اس کا یہیں گرچہ بہل جائے تو اچھا

ہے قطع رہ عشق میں اے ذوقؔ ادب شرط
جوں شمع تو اب سر ہی کے بل جائے تو اچھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse